موجودہ دور میں باندیوں اور لونڈیوں کا تصور

باندی سے اس کے آقا کے لیے جنسی خواہش پوری کرنا جائز ہے ،قرآن کریم کی آیات  اوراحادیث سے بھی صراحت کے ساتھ اس کاجواز ثابت  ہے، مگرباندیوں اور لونڈیوں  سے مرادکیا ہے اسے سمجھ لینا چاہیے، باندیوں سے مراد وہ  آزاد عورتیں  نہیں  ہیں  جن کوعیاش طبقہ نے بطورِ داشتہ رکھا ہو، اور آزاد عورتیں جن کی خریدوفروخت  ہوتی  ہے، وہ بھی اس سے مراد نہیں ہیں، اورجس طبقے کو زورآور اورجابر طبقہ نے محض طاقت اورقوت  کے بل بوتے پرغلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا ہووہ بھی مراد نہیں ہے۔

باندیوں سے مراد شرعی باندیا ں ہیں، اور شرعاً باندیوں سے مراد وہ غیر مسلم عورتیں ہیں جو جہاد کے بعد غنیمت  میں حاصل ہوگئی ہوں، (پھر خواہ گرفتاری کے بعد وہ اسلام قبول کرلیں تو بھی باندی رہ سکتی ہیں، لیکن پہلے سے مسلمان ہوں تو انہیں گرفتار کرکے باندی بنانا جائز نہیں ہے) ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہاکردیا جاتا ہے یا معاوضہ لے کر چھوڑدیا جاتا ہے یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑادیا جاتا ہے، لیکن اگرانہیں احسان کے طورپر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ اداکریں اورتبادلہ اسیران  کی بھی صورت نہ بن سکے توپھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت  انہیں غازیوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس تقسیم کی حکمت بھی  ملکی اورتمدنی مصالح،معاشرے کی بہبود  اورخود ان باندیوں کاتحفظ   اورانہیں معاشرے کا ایک معززرکن بناتا ہوتا ہے،تقسیم کے بعد آقا اگر اس باندی کاکسی سے نکاح کردے تو وہ  اپنےمالک کے لیے حرام اورصرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اوراگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے  یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے اوراگر اس تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوگئی تو وہ باندی مالک کے مرنے کے بعدآپ ہی آپ آزاد ہوجاتی ہے۔

غلام وباندی کا دستور  اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں یہ دستور کثرت سے رائج تھا،  حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یاباندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
اول:         جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنانے کا طریقہ۔
دوم:       لوگ، فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور وہ ان کو اپنا غلام یا باندی بنا لیتے۔
سوم:           کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ غلام بنالیے جاتے تھے۔
چہارم:            یوں بھی کسی کو چرا کر لے آتے او رزبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔
آں حضرت صلی ﷲعلیہ وسلم نے غلامی کی ان تمام صورتوں کو سخت ناجائز اور موجبِ عذابِ الٰہی قرار دیا اور صرف ایک صورت کو باقی رکھا  یعنی وہ  کفار جو جنگ میں گرفتا رکیے جائیں، مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔ اور جو افراد پہلے سے غلامی کی زنجیر میں ہوں، انہیں بھی مختلف کفارات میں آزاد کرنے کے احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں آئے ہیں۔ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور سزا کی ایک صورت ہے جو کفر کی جزا کے طور پر پچھلی امتوں میں جاری کی گئی، اور مسلمانوں کے لیے بھی کسی کو ابتداءً غلام بنانے کی اجازت اسی حالت میں باقی رکھی گئی کہ جو کافر اسلام کے مقابلے پر آجائیں تو ایسے حربی کافروں کو مخصوص احوال میں غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں ابتداءً غلام بنانے کا حکم یا ترغیب نہیں ہے، بلکہ مخصوص احوال میں اس کی گنجائش دی ہے جو اجازت کے درجے میں ہے۔

چوں کہ غلام بنانا اسلام میں بطورِ حکم نہیں، بلکہ بطورِ اجازت ہے، تو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ جب وہ قرینِ مصلحت سمجھیں، غلام بنانے کا سلسلہ موقوف رکھیں، موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں مسلمانوں نے بھی یہ سلسلہ بالکل موقوف کردیا ہے، لہٰذا جو ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں انہیں معاہدے کی رو سے اس کی پاس داری کرنی لازم ہے۔

لہذا موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایاجاسکتا ؛ اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے یہ ان میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ  شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو  وغیرہ وغیرہ ، موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے کسی عورت کو باندی بناناجائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments

Popular posts from this blog

TAWHEED VS TRINITY

Tawheed versus Trinity: Which is the True Concept of God – Part 1.

What Non-Muslims Say About Muhammad, The Prophet of Islam (Peace and Blessings be Upon Him and His Family)